(ایجنسیز)
فلسطینی خاتون وکیل ھبہ موسلہا نے مجیدو جیل کا دورہ کرنے کے بعد اسرائیل کی جانب سے جیلوں میں فلسطینی بچوں کے خلاف جاری رکھی جانیوالی نامناسب پالیسی پر روشنی ڈالی ہے۔
خاتون ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے بچوں کو جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ 16 سالہ فلسطینی اسیر سامر جعبری کو ستمبر 2013 میں گرفتار کیا گیا تھا اور اس وقت وہ ارئیل یہودی بستی میں قید ہیں۔ انہیں انتہائی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے ان کا بہت سارا خون بہہ گیا۔ اس کے بعد انہیں کئی گھنٹوں کے لئے کرسی کے ساتھ ہتھکڑی لگا کر باندھ دیا جاتا تھا۔
خاتون وکیل نے ایک اور اسیر 16 سالہ ولید عودہ کے حوالے سے بتایا کہ انہیں بھی حراست کے وقت شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں رائفل کے بٹ مار کر زخمی کردیا گیا تھا۔ اس کے
بعد انہیں ایک فوجی کیمپ میں منتقل کردیا گیا تھا جہاں انہیں کئی گھنٹے تک سرد موسم میں رکھا گیا اور اس کے بعد انہیں تفتیش کے لئے ارئیل بستی منتقل کردیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ تضامن فائونڈیشن برائے انسانی حقوق نے کہا ہے کہ عوفر جیل میں قید فلسطینی اسیران جیل کے کمروں میں زیادہ قیدی ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔
عوفر جیل کے دورے کے بعد فائونڈیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ اسرائیلی جیل انتظامیہ نے عوفر سے رش کو ختم کرنے کے لئے کئی انتظامی اسیران کو دوسری جیلوں خاص طور پر مجیدو جیل میں منتقل کردیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عوفر جیل کا سیکشن 14 صرف 120 اسیران کے لئے بنایا گیا ہے مگر اس میں 145 قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔ وکیل کے مطابق فلسطینی اسیران کی بڑھتی تعداد کو زمین پر سونا پڑ رہا ہے کیوںکہ اتنے زیادہ اسیران کی موجودگی کی وجہ سے جیل میں بستروں کی کمی ہوگئی ہے۔